The Crime of Qom-e-Lut
The Heights (7:80-84)
7:80
وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِۦٓ أَتَأْتُونَ ٱلْفَـٰحِشَةَ مَا سَبَقَكُم بِهَا مِنْ أَحَدٍۢ مِّنَ ٱلْعَـٰلَمِينَ ٨٠
And ˹remember˺ when Lot scolded ˹the men of˺ his people, ˹saying,˺ “Do you commit a shameful deed that no man has ever done before?
— Dr. Mustafa Khattab, The Clear Quran
And (We sent) LūT (Lot) when he said to his people, “Do you commit the shameful act in which nobody in the world has ever preceded you?
— T. Usmani
And [We had sent] Lot when he said to his people, "Do you commit such immorality as no one has preceded you with from among the worlds [i.e., peoples]?
— Saheeh International
80. And (remember) Lût (Lot), when he said to his people: "Do you commit the worst sin such as none preceding you has committed in the ‘Âlamîn (mankind and jinn)?
— Al-Hilali & Khan
We sent Lot and he said to his people, ‘How can you practise this outrage? No one in the world has outdone you in this.
— M.A.S. Abdel Haleem
And remember when We sent Lot [as a Messeng to his people and he said to them:1 'Do you realize you practise an indecency of which no other people in the world were guilty of before you?
— A. Maududi (Tafhim commentary)
[1]The land inhabited by the people of Lot, which lies between Iraq and Palestine, is known as Trans-Jordan. According to the Bible, its capital town was Sodom, which is situated either somewhere near the Dead Sea, or presently lies submerged under it.. Apart from Sodom, according to the Talmud, there were four other majour cities, and the land lying between these cities was dotted with such greenery and orchards that the whole area looked like one big garden enchanting any onlooker. However, the whole nation was destroyed and today wc can find no trace of it. So much so that it is difficult to even locate the main cities which they inhabited. If anything remains as a reminder of this nation it is the Dead Sea which is also called the Sea of Lot. The Prophet Lot who was a nephew of the Prophet Abraham, accompanied his uncle as he moved away from Iraq. Lot sojourned to Syria, Palestincand Egypt forawhile and gained practical experience of preaching his message. Later God bettowed prophethood upon him and assigned to him the mission of reforming his misguided people. The people of Sodom have been referred to as the people of Lot presumably because Lot may have established matrimonial ties with those people. One of the many accusations recorded gainst Lot in the Bible - and the Bible has been tampered with extensively by the Jews - is that Lot migrated to Sodom after an argument with Abraham (Genesis 13: 10-12). The Qur'an refutes this baseless charge and affirms that Lot was designated by God to work as His Messenger among his people. The author refers to an argument between Abraham and Lot which he considers to be a fabrication of Jews.The obvious basis of this is that such an argument between the Prophets is inconceivable since it is unbecoming of them as Prophets. The basis of this inference is a statement in Genesis 13:1-12. It seems that there has been some confusion with regard to this inference. The verses of Genesis in question make no reference to any strife between the two Prophets. The strife to which it refers allegedly took place between the two Prophets. In addition, when the two Prophets parted company it was on a pleasant note for Abraham had suggested that since there was an abundance of land, Lot should choose that part of the land he preffered so as to exclude all possibilities of strife between their herdsmen. (See Genesis 13:1-5-Ed.)
And Lot! (Remember) when he said unto his folk: Will ye commit abomination such as no creature ever did before you?
— M. Pickthall
We also (sent) Lut: He said to his people: "Do ye commit lewdness such as no people in creation (ever) committed before you?
— A. Yusuf Ali
اور لوط کو ہم نے پیغمبر بنا کر بھیجا ‘ پھر یاد کرو جب اس نے اپنی قوم سے کہا ” کیا تم ایسے بےحیا ہوگئے کہ وہ فحش کام کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کیا ؟
— Fe Zilal al-Qur'an
اور لوطؑ کو ہم نے پیغمبر بنا کر بھیجا ، پھر یاد کرو جب اُس نے اپنی قوم سے کہا1 ”کیا تم ایسے بے حیا ہوگئے ہو کہ وہ فحش کام کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کیا؟
— Tafheem e Qur'an - Syed Abu Ali Maududi
[1] یہ قوم اس علاقہ میں رہتی تھی جسے آج کل شرق اردن(Trans Jordan ) کہا جاتا ہے اور عراق و فلسطین کے درمیان واقع ہے۔ بائیبل میں اس قوم کے صدر مقام کا نام”سدوم“ بتا یا گیا ہے جو یا تو بحیرہ مردار کے قریب کسی جگہ واقع تھا یا اب بحیرہ مردار میں غرق ہو چکاہے۔تَلمود میں لکھا ہے کہ سدوم کے علاوہ ان کے چار بڑے بڑے شہر اور بھی تھے اور ان شہروں کے درمیان کا علاقہ ایسا گلزار بنا ہوا تھا کہ میلوں تک بس ایک باغ ہی باغ تھا جس کے جمان کو دیکھ کر انسان پر مستی طاری ہو نے لگتی تھی۔ مگر آج اس قوم کا نام و نشان دنیا سے بالکل نا پید ہو چکا ہے اور یہ بھی متعین نہیں ہے کہ اس کی بستیاں ٹھیک کس مقام پر واقع تھیں ۔ اب صرف بحیرہ مردار ہی اس کی ایک یادگا باقی رہ گیا ہے جسے آج تک بحِر لوط کہا جاتا ہے۔
حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابرہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے۔ اپنے چچا کے ساتھ عراق سے نکلے اور کچھ مدت تک شام و فلسطین و مصر میں گشت لگا کر دعوت تبلیغ کا تجربہ حاصل کرتے رہے۔ پھر مستقل پیغمبری کے منصب پر سرفراز ہو کر اس بگڑی ہوئی قوم کی اصلاح پر مامور ہوئے۔ اہل سدوم کو ان کی قوم اس لحاظ سے کہا گیا ہے کہ شاید ان کیا رشتہ داری کا تعلق اس قوم سے ہوگا۔
یہودیوں کی تحریف کردہ بائیبل میں حضرت لوط کی سیرت پر جہاں اور بہت سے سیاہ دھبے لگائے گئے ہیں وہاں ایک دھبہ یہ بھی ہے کہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے لڑ کر سدوم کے علاقے میں چلے گئے تھے(پیدائش، باب ١3۔آیت١۔١2)۔ مگر قرآن اس غلط بیانی کی تردید کر تا ہے۔ اس کا بیان یہ ہے کہ اللہ نے انہیں رسول بنا کر اس قوم کی طرف بھیجا تھا۔
اور اسی طرح جب ہم نے لوط کو (پیغمبر بنا کر بھیجا تو) اس وقت انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ تم ایسی بےحیائی کا کام کیوں کرتے ہو کہ تم سے اہل عالم میں سے کسی نے اس طرح کا کام نہیں کیا
— Fatah Muhammad Jalandhari
اور ہم نے لوط (علیہ السلام) کو بھیجا[1] جبکہ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم ایسا فحش کام کرتے ہو جس کو تم سے پہلے کسی نے دنیا جہان والوں میں سے نہیں کیا۔
— Maulana Muhammad Junagarhi
[1]حضرت لوط (عليه السلام) ، حضرت ابراہیم (عليه السلام) کے بھتیجے تھے اور حضرت ابراہیم (عليه السلام) پر ایمان لانے والوں میں سے تھے پھر خود ان کو بھی اللہ تعالیٰ نے ایک علاقے میں نبی بناکر بھیجا ۔ یہ علاقہ اردن اور بیت المقدس کے درمیان تھا جسے سدوم کہا جاتا ہے ۔ یہ زمین سرسبز وشاداب تھی اور یہاں ہر طرح کے غلے اور پھلوں کی کثرت تھی ۔ قرآن نے اس جگہ کو مُؤْتَفِكَةٌ یا مُؤْتَفِكَاتٌ کے الفاظ سے ذکر کیا ہے ۔ حضرت لوط (عليه السلام) نے غالباً سب سے پہلے یا دعوت توحید کے ساتھ ہی، ( جو ہر نبی کی بنیادی دعوت تھی اور سب سے پہلے وہ اسی کی دعوت اپنی قوم کو دیتے تھے ۔ جیسا کہ پچھلے نبیوں کے حالات میں، جن کا ذکر ابھی گذرا ہے، دیکھا جاسکتا ہے) جو دوسری بڑی خرابی مردوں کے ساتھ بدفعلی، قوم لوط میں تھی، اس کی شناعت وقباحت بیان فرمائی ۔ اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ ایک ایسا گناہ ہے جسے دنیا میں سب سے پہلے اسی قوم لوط نے کیا، اس گناہ کا نام ہی لواطت پڑگیا ۔ اس لئے مناسب سمجھا گیا کہ پہلے قوم کو اس جرم کی خطرناکی سے آگاہ کیا جائے ۔ علاوہ ازیں حضرت ابراہیم (عليه السلام) کے ذریعے دعوت توحید بھی یہاں پہنچ چکی ہوگی ۔ لواطت کی سزا میں ائمہ کے درمیان اختلاف ہے ۔ بعض ائمہ کے نزدیک اس کی وہی سزا ہے جو زنا کی ہے یعنی مجرم اگر شادی شدہ ہو تو رجم، غیرشادی شدہ ہو تو سو کوڑے ۔ بعض کے نزدیک اس کی سزا ہی رجم ہے چاہے مجرم کیسا بھی ہو اور بعض کے نزدیک فاعل اور مفعول بہ دونوں کو قتل کر دینا چاہئے ۔ البتہ امام ابوحنیفہ صرف تعزیری سزا کے قائل ہیں، حد کے نہیں (تحفة الأحوذي جلد 5 ص17)
اور لوط ؑ (کو بھی ہم نے بھیجا) جب اس نے کہا اپنی قوم سے کیا تم ایسی بےحیائی کا ارتکاب کر رہے ہو جو تم سے پہلے تمام جہان والوں میں سے کسی نے بھی نہیں کی۔
— بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد)
اور بھیجا لوط کو جب کہا اس نے اپنی قوم کو کیا تم کرتے ہو ایسی بے حیائی کہ تم سے پہلے نہیں کیا اس کو کسی نے جہان میں [1]
— Shaykh al-Hind Mahmud al-Hasan(with Tafsir E Usmani)
[1]حضرت لوط علیہ السلام:لوطؑ حضرت ابراہیمؑ خلیل اللہ کے بھتیجے ہیں جو ان کےساتھ عراق سے ہجرت کر کے ملک شام میں تشریف لائے اور خدا کی طرف سے سدوم اور اس کے گردونواح کی بستیوں کی طرف مبعوث ہوئے تاکہ ان کی اصلاح فرمائیں اور ان گندے، خلاف فطرت اور بےحیائی کے کاموں سے باز رکھیں جن میں وہاں کےلوگ مبتلا تھے۔ نہ صرف مبتلا بلکہ اس بےحیائی کے موجد تھے ان سے پیشتر عالم میں اس بیماری سےکوئی واقف نہ تھا۔ اولًا یہ ملعون حرکت شیطان نے سدوم والوں کو سمجھائی اور وہیں سےدوسرے مقامات میں پھیلی۔ حضرت لوطؑ نے اس ملعون و شنیع حرکت کے عواقب پر متنبہ کیا اور گندگی کو دنیا سے مٹانا چاہا۔ موجودہ بائبل کے جمع کرنے والوں کی شرمناک جسارت پر ماتم کرنا پڑتا ہے کہ ایسے پاکباز اور معصوم پیغمبر کی نسبت جو دنیا کو بےحیائی اور گندگی سے پاک کرنے کے لئے آیا تھا ایسی سخت ناپاک حرکات منسوب کیں جن کے سننے سے حیادار آدمی کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کَبُرَتۡ کَلِمَۃً تَخۡرُجُ مِنۡ اَفۡوَاہِہِمۡ ؕ اِنۡ یَّقُوۡلُوۡنَ اِلَّا کَذِبًا (کہف۔۵)
اور ہم نے لوط کو بھیجا جب اس نے اپنی قوم سے کہا کیا تم کھلی بے حیائی کا کام کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کیا
— Maulana Wahiduddin Khan
Aur Lut ko humne paigambar banakar bheja, phir yaad karo jab usne apni qaum se kaha, “ kya tum aisey be-haya ho gaye ho, ke woh fahash kaam karte ho jo tumse pehle duniya mein kisi ne nahin kiya
— Abul Ala Maududi(Roman Urdu)
7:81
إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ ٱلرِّجَالَ شَهْوَةًۭ مِّن دُونِ ٱلنِّسَآءِ ۚ بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌۭ مُّسْرِفُونَ ٨١
You lust after men instead of women! You are certainly transgressors.”
— Dr. Mustafa Khattab, The Clear Quran
You come to men lustfully instead of women. No, you are a people who cross the limits.”
— T. Usmani
Indeed, you approach men with desire, instead of women. Rather, you are a transgressing people."
— Saheeh International
81. "Verily, you practise your lusts on men instead of women. Nay, but you are a people transgressing beyond bounds (by committing great sins)."
— Al-Hilali & Khan
You lust after men rather than women! You transgress all bounds!’
— M.A.S. Abdel Haleem
You approach men lustfully in place of women. You are a people who exceed all bounds.'1
— A. Maududi (Tafhim commentary)
[1]The Qur'an refers elsewhere to the many evil deeds of the people of Lot. Here the Qur'an confines itself to mentioning that most ignominious of crimes which invited God's scourge upon them. The hideous act of sodomy, for which the people of Lot earned notoriety, has no doubt been committed by perverts in all times. The Greeks philosophers had the distinction of glorifying it as a moral virtue. It was left, however, for the modern West to vigorously propagate sodomy so much so that it was declared legal by the legislatures of a few countries. All this has been done in the face of the obvious fact that this form of sexual intercourse is patently unnatural. God created distinctions between the sexes of all living beings for the purposes of reproduction and perpetuation of the species. As far as the human species is concerned, their creation into two sexes is related to another end as well: that the two should come together in order to bring into existence the family and establish human civilization. In view of this, not only were human beings divided into two sexes, but each sex was made attractive to the other. The physical structure and psychological make-up of each sex was shaped in keeping with the purpose of forging bonds of mutual cordiality between the members of the two sexes. The sexual act, which is intensely pleasurable is at once a factor leading to the fulfilment of nature's purposes as underlined by the sexual division of humankind as well as a reward for fulfilling these purposes. Now, the crime of the person who commits sodomy in flagrant opposition to this scheme of things, is not limited to that act alone. In fact he commits along with it a number of other crimes. First, he wages war against his own nature, against his inherent psychological predilection. This causes a major disorder which leads to highly negative effects on the lives of both the parties involved in that unnatural act - effects which are physical, psychological as well as moral. Second, he acts dishonestly with nature since while he derives sexual pleasure he fails to fulfil the societal obligation of which this pleasure is a recompense. Third, such a person also acts dishonestly with human society. For, although he avails himself of the advantages offered by various social institutions, when he has an opportunity to act, he uses his abilities in a manner which not only fails to serve that society but which positively harms it. Apart from neglecting the abligations he owes to society, he renders himself incapable of serving the human race and his own family. He also produces effeminacy in at least one male and potentially pushes at least two females towards sexual corruption and moral depravity.
Lo! ye come with lust unto men instead of women. Nay, but ye are wanton folk.
— M. Pickthall
"For ye practise your lusts on men in preference to women: ye are indeed a people transgressing beyond bounds."
— A. Yusuf Ali
تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی خواہش پوری کرتے ہو ۔ حقیقت یہ ہے کہ تم بالکل ہی حد سے گزر جانے والے لوگ ہو ۔
— Fe Zilal al-Qur'an
تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی خواہش پوری کرتے ہو1، حقیقت یہ ہے کہ تم بالکل ہی حد سے گزر جانے والے لوگ ہو۔“
— Tafheem e Qur'an - Syed Abu Ali Maududi
[1] دوسرے مقامات پر اس قوم کے بعض اور اخلاقی جرائم کا بھی ذکر آیا ہے، مگر یہاں اس کے سب سے بڑے جرم کے بیان پر اکتفا کیا گیا ہے جس کی وجہ سے خدا کا عذاب اس پر نازل ہوا۔
یہ قابل نفرت فعل جس کی بدولت اس قوم نے شہرت دوام حاصل کی ہے، اس کے ارتکاب سے تو بد کردار انسان کبھی باز نہیں آئے، لیکن یہ فخر صرف یونان کو حاصل ہے کہ اس کے فلاسفہ نے اس گھناؤنے جرم کو اخلاقی خوبی کے مرتبے تک اٹھا نے کی کوشش کی اور اس کے بعد جو کسر باقی رہ گئی تھی اسے جدید مغربی تہذیب نے پورا کیا کہ علانیہ اس کے حق میں زبر دست پروپیگنڈا کیا گیا، یہاں تک کہ بعض ملکوں کی مجالسِ قانون سازنے اسے باقاعدہ جائزٹھیرا دیا۔ حالانکہ یہ بالکل ایک صریح حقیقت ہے کہ مبا شرتِ ہم جنس قطعی طور پر وضِع فطرت کےخلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام ذی حیات انواع میں نرومادہ کا فرق محض تناسُل اور بقائے نوع کے لیے رکھا ہے اور نوع انسانی کے اندر اس کی مزید غرض یہ بھی ہے کہ دونوں صنفوں کے افراد مل کر ایک خاندان وجود میں لائیں اور اُس سے تمدن کی بنیاد پڑے۔ اسی مقصد کے لیے مرد اور عورت کی دو الگ صنفیں بنا ئی گئی ہیں، ان میں ایک دوسرے کے لیے صنفی کشش پیدا کی گئی ہے، ان کی جسمانی سباخت اور نفسیاتی ترکیب ایک دوسرے کے جواب میں مقاصد زوجیت کے لیے عین مناسب بنائی گئی ہے اور ان کے جذب و انجذاب میں وہ لذت رکھی گئی ہے جو فطرت کے منشاء کو پورا کرنے کے لیے بیک وقت داعی ومحرک بھی ہے اور اس خدمت کا صلہ بھی ۔ مگر جو شخص فطرت کی اس اسکیم کے خلاف عمل کر کے اپنے ہم جنس سے شہوانی لذت حاصل کرتا ہے وہ ایک ہی وقت میں متعدد جرائم کا مرتکب ہوتا ہے۔ اوّلاً وہ اپنی اور اپنے معمول کی طبعی ساخت اور نفسیاتی ترکیب سے جنگ کرتا ہے اور اس میں خللِ عظیم بر پا کردیتا ہے جس سے دونوں کے جسم ،نفس اور اخلاق پر نہایت بُرے اثرات مترتب ہوتے ہیں۔ 2 ثانیاً وہ فطرت کے ساتھ غداری و خیانت کا ارتکا ب کرتا ہے، کیونکہ فطرت نے جس لذت کو نوع اور تمدن کی خدمت کا صلہ بنایا تھا اور جس کے حصول کو فرائض اور زمہ داریوں اور حقوق کے ساتھ وابستہ کیا تھا وہ اسے کسی خدمت کی بجاآوری اور کسی فرض اور حق کی ادائیگی اور کسی ذمہ داری کے التزام کے بغیر چُرا لیتا ہے۔ 3 ثالثاً وہ انسانی اجتماع کے ساتھ کھلی بد دیا نتی کرتا ہے کہ جماعت کے قائم کیے ہوئے تمدنی اداروں سے فائدہ تو اُٹھا لیتا ہے مگر جب اس کی اپنی باری آتی ہے تو حقوق اور فرائض اور ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے کے بجائے اپنی قوتوں کو پوری خود غرضی کے ساتھ ایسے طریقہ پر استعمال کرتا ہے جو اجتماعی تمدن و اخلاق کے لیے صرف غیر مفید ہی نہیں بلکہ ایجاباً مضرت رساں ہے ۔ وہ اپنے آپ کو نسل اور خاندان کی خدمت کے لیے نا اہل بنا تا ہے، اپنے ساتھ کم از کم ایک مرد کو غیر طبعی زنانہ پن میں مبتلا کرتا ہے، اور کم از کم دو عورتوں کے لیے بھی صنفی بے راہ روی اور اخلاقی پستی کا دروازہ کھول دیتا ہے۔
یعنی خواہش نفسانی پورا کرنے کے لیے عورتوں کو چھوڑ کر لونڈوں پر گرتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تم لوگ حد سے نکل جانے والے ہو
— Fatah Muhammad Jalandhari
تم مردوں کے ساتھ شہوت رانی کرتے ہو[1] عورتوں کو چھوڑ کر[2]، بلکہ تم تو حد ہی سے گزر گئے ہو۔[3]
— Maulana Muhammad Junagarhi
[1]یعنی مردوں کے پاس تم اس بے حیائی کے کام کے لئے محض شہوت رانی کی غرض سے آتے ہو، اس کے علاوہ تمہاری اور کوئی غرض ایسی نہیں ہوتی جو موافق عقل ہو ۔ اس لحاظ سے وہ بالکل بہائم کی طرح تھے جو محض شہوت رانی کے لئے ایک دوسرے پر چڑھتے ہیں ۔
[2]جو قضائے شہوت کا اصل محل اور حصول لذت کی اصل جگہ ہے ۔ یہ ان کی فطرت کے مسخ ہونے کی طرف اشارہ ہے، یعنی اللہ نے مرد کی جنسی لذت کی تسکین کے لئے عورت کی شرم گاہ کو اس کا محل اور موضع بنایا ہے اور ان ظالموں نے اس سے تجاوز کرکے مرد کی دبر کو اس کے لئے استعمال کرنا شروع کردیا ۔
[3]لیکن اب اسی فطرت صحیحہ سے انحراف اور حدود الٰہی سے تجاوز کو مغرب کی (مہذب) قوموں نے اختیار کرلیا ہے تو یہ انسانوں کا (بنیادی حق) قرار پاگیا ہے جس سے روکنے کا کسی کو حق حاصل نہیں ہے ۔ چنانچہ اب وہاں لواطت کو قانونی تحفظ حاصل ہوگیا ہے ۔ اور یہ سرے سے جرم ہی نہیں رہا ۔ فَإِنَّا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.
تم مردوں کا رخ کرتے ہو شہوت کے ساتھ عورتوں کو چھوڑ کر بلکہ تم تو ہو ہی حد سے تجاوز کرنے والی قوم۔
— بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد)
تم تو دوڑتے ہو مردوں پر شہوت کے مارے عورتوں کو چھوڑ کر بلکہ تم لوگ ہو حد سے گذرنے والے [1]
— Shaykh al-Hind Mahmud al-Hasan(with Tafsir E Usmani)
[1]حضرت لوط علیہ السلام:یعنی صرف یہ ہی نہیں کہ ایک گناہ کے تم مرتکب ہو رہے ہو بلکہ اس خلاف فطرت فعل کا ارتکاب اس کی دلیل ہےکہ تم انسانیت کی حدود سے بھی باہر نکل چکے ہو۔
تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی خواہش پوری کرتے ہو بلکہ تم حد سے گزر جانے والے لوگ ہو
— Maulana Wahiduddin Khan
Tum auraton ko chodh kar mardon se apni khwaish poori karte ho. Haqeeqat yeh hai ke tum bilkul hi hadd se guzar janey waley log ho”
— Abul Ala Maududi(Roman Urdu)
7:82
وَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِۦٓ إِلَّآ أَن قَالُوٓا۟ أَخْرِجُوهُم مِّن قَرْيَتِكُمْ ۖ إِنَّهُمْ أُنَاسٌۭ يَتَطَهَّرُونَ ٨٢
But his people’s only response was to say, “Expel them from your land! They are a people who wish to remain chaste!”
— Dr. Mustafa Khattab, The Clear Quran
The answer of his people was no other than to say, “Expel them from your town. They are a people who pretend too much purity.”
— T. Usmani
But the answer of his people was only that they said, "Evict them from your city! Indeed, they are men who keep themselves pure."
— Saheeh International
The only response his people gave was to say [to one another], ‘Drive them out of your town! These men want to keep themselves chaste!’
— M.A.S. Abdel Haleem
82. And the answer of his people was only that they said: "Drive them out of your town, these are indeed men who want to be pure (from sins)!"
— Al-Hilali & Khan
Their only answer was: 'Banish them from your town. They are a people who pretend to be pure.' 1
— A. Maududi (Tafhim commentary)
[1]It is evident from the present verse that the people of Lot Were not only shameless and corrupt, but were also a people who had sunk in moral depravity to such a degree that even the presence of a few righteous persons had become intolerable to them. Their moral degradation left them with no patience for anyone who sought to bring about any moral reform. Even the slightest element of purity found in their society was too much for them, and they simply wished to have their society purged of it. When these people reached such a low point of wickedness and hostility to good, God decreed that they be wiped out altogether. When the collective life of a people becomes totally bereft of goodness and purity, it forfeits the right to exist on earth. Their example is like that of a basket of fruit. As long as some fruit remains firm, there is some justification to keep that basket. But the basket has to be thrown away when the fruit becomes rotten.
And the answer of his people was only that they said (one to another): Turn them out of your township. They are folk, forsooth, who keep pure.
— M. Pickthall
And his people gave no answer but this: they said, "Drive them out of your city: these are indeed men who want to be clean and pure!"
— A. Yusuf Ali
مگر اس کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ ” نکالو ان لوگوں کو اپنی بسیتوں سے ‘ بڑے پاکباز بنتے ہیں ۔
— Fe Zilal al-Qur'an
مگر اس کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ ”نکالو اِن لوگوں کو اپنی بستیوں سے ، بڑے پاکباز بنتے ہیں یہ۔1“
— Tafheem e Qur'an - Syed Abu Ali Maududi
[1]اس سے معلوم ہوا کہ یہ لوگ صرف بے حیاا ور بد کردار اور بد اخلاق ہی نہ تھے بلکہ اخلاقی پستی میں اس حد تک گر گئے تھے کہ انہیں اپنے درمیان چند نیک انسانوں اورنیکی کی طرف بلانے والوں اور بدی پر ٹوکنے والوں کا وجود تک گوارا نہ تھا۔ وہ بدی میں یہاں تک غرق ہو چکے تھے کہ اصلاح کی آواز کو بھی برداشت نہ کر سکتے تھے اور پاکی کے اس تھوڑے سے عنصر کو بھی نکال دینا چاہتے تھے جو ان کی گھناؤنی فضا میں باقی رہ گیا تھا۔ اسی حد کوپہنچنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے استیصال کا فیصلہ صادر ہوا۔ کیونکہ جس قوم کی اجتماعی زندگی میں پاکیزگی کا ذرا سا عنصر بھی باقی نہ رہ سکے پھر اسے زمین پر زندہ رکھنے کی کوئی وجہ نہیں رہتی۔ سڑے ہوئے پھلوں کے ٹوکرے میں جب تک چند اچھے پھل موجود ہوں اس وقت تک تو ٹوکرے کو رکھا جا سکتا ہے، مگر جب وہ پھل بھی اس میں سے نکل جائیں تو پھر اس ٹوکرے کا کوئی مصرف اس کے سوا نہیں رہتا کہ اُسے کسی گھوڑے پر اُلٹ دیا جائے۔
تو ان سے اس کا جواب کچھ نہ بن پڑا اور بولے تو یہ بولے کہ ان لوگوں (یعنی لوط اور اس کے گھر والوں) کو اپنے گاؤں سے نکال دو (کہ) یہ لوگ پاک بننا چاہتے ہیں
— Fatah Muhammad Jalandhari
اور ان کی قوم سے کوئی جواب نہ بن پڑا، بجز اس کے کہ آپس میں کہنے لگے کہ ان لوگوں کو اپنی بستی سے نکال دو۔ یہ لوگ بڑے پاک صاف بنتے ہیں۔[1]
— Maulana Muhammad Junagarhi
[1]یہ حضرت لوط کو بستی سے نکالنے کی علت ہے۔ باقی ان کی پاکیزگی کا اظہار یا تو حقیقت کے طور پر ہے اور مقصد ان کا یہ ہوا کہ یہ لوگ اس برائی سے بچنا چاہتے ہیں، اس لئے بہتر ہے کہ یہ ہمارے ساتھ ہماری بستی ہی میں نہ رہیں یا استہزا اور تمسخر کے طور پر انہوں نے ایسا کہا ۔
تو نہیں تھا اس کی قوم کا کوئی جواب سوائے اس کے کہ انہوں نے کہا نکالو ان کو اپنی بستی سے یہ لوگ بڑے پاکباز بنتے ہیں
— بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد)
اور کچھ جواب نہ دیا اس کی قوم نے مگر یہی کہا کہ نکالو ان کو اپنے شہر سے یہ لوگ بہت ہی پاک رہنا چاہتے ہیں
— Shaykh al-Hind Mahmud al-Hasan(with Tafsir E Usmani)
Magar uski qaum ka jawab iske siwa kuch na tha ke “ nikalo in logon ko apni bastiyon se, badey paakbaaz bante hain yeh”
— Abul Ala Maududi(Roman Urdu)
مگر اس کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ انھیں اپنی بستی سے نکال دو یہ لوگ بڑے پاک باز بنتے ہیں
— Maulana Wahiduddin Khan
7:83
فَأَنجَيْنَـٰهُ وَأَهْلَهُۥٓ إِلَّا ٱمْرَأَتَهُۥ كَانَتْ مِنَ ٱلْغَـٰبِرِينَ ٨٣
So We saved him and his family except his wife, who was one of the doomed.
— Dr. Mustafa Khattab, The Clear Quran
So, We saved him and his family, except his wife. She was one of those who remained behind.
— T. Usmani
So We saved him and his family, except for his wife; she was of those who remained [with the evildoers].
— Saheeh International
83. Then We saved him and his family, except his wife; she was of those who remained behind (in the torment).
— Al-Hilali & Khan
We saved him and his kinsfolk- apart from his wife who stayed behind-
— M.A.S. Abdel Haleem
Then We delivered Lot and his household save his wife who stayed behind,1
— A. Maududi (Tafhim commentary)
[1]As the Qur'an mentions elsewhere, Lot's wife supported her disbelieving relatives to the last. Hence, when God directed Lot and his followers to migrate from that corrupt land, He ordained that Lot's wife be left behind. This seems to be an inference from( al- Tahrim 66: 10 - Ed).
And We rescued him and his household, save his wife, who was of those who stayed behind.
— M. Pickthall
But we saved him and his family, except his wife: she was of those who legged behind.
— A. Yusuf Ali
آخر کار ہم نے لوط اور اس کے گھر والوں کو نجات دی بجز اس کی بیوی کے جو پیچھے رہ جانے والوں میں تھی
— Fe Zilal al-Qur'an
آخرِکار ہم نے لوط ؑ اور اس کے گھر والوں کو۔۔۔۔ بجز اس کی بیوی کے جو پیچھے رہ جانے والوں میں تھی۔۔۔۔1
— Tafheem e Qur'an - Syed Abu Ali Maududi
[1] دوسرے مقامات پر تصریح ہے کہ حضرت لوط کی یہ بیوی ، جو غالباً اسی قوم کی بیٹی تھی، اپنے کافر رشتہ داروں کی ہمنوارہی اور آخر وقت تک اس نے ان کا ساتھ نہ چھوڑا۔ اس لیے عذاب سے پہلے جب اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط اور ان کے ایمان دار ساتھیوں کو ہجرت کر جانے کا حکم دیا تو ہدایت فرمادی کہ اس عورت کو ساتھ نہ لیا جائے۔
تو ہم نے ان کو اور ان کے گھر والوں کو بچا لیا مگر ان کی بی بی (نہ بچی) کہ وہ پیچھے رہنے والوں میں تھی
— Fatah Muhammad Jalandhari
سو ہم نے لوط (علیہ السلام) کو اور ان کے گھر والوں کو بچا لیا بجز ان کی بیوی کے کہ وه ان ہی لوگوں میں رہی جو عذاب میں ره گئے تھے۔[1]
— Maulana Muhammad Junagarhi
[1]إِنَّهَا كَانَتْ مِنَ الْبَاقِينَ فِي عَذَابِ اللهِ ، یعنی وہ ان لوگوں میں باقی رہ گئی جن پر اللہ کا عذاب آیا ۔ کیونکہ وہ بھی مسلمان نہیں تھی اور اس کی ہمدردیاں بھی مجرمین کے ساتھ تھیں بعض نے اس کا ترجمہ (ہلاک ہونے والوں میں سے) کیا ہے ۔ لیکن یہ لازمی معنی ہیں، اصل معنی وہی ہیں ۔
تو ہم نے نجات دے دی اس ؑ کو اور اس کے گھر والوں کو سوائے اس کی بیوی کے وہ ہوگئی پیچھے رہنے والوں ہی میں
— بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد)
پھر بچا دیا ہم نے اس کو اور اسکے گھر والوں کو مگر اس کی عورت کہ رہ گئ وہاں کے رہنے والوں میں [1]
— Shaykh al-Hind Mahmud al-Hasan(with Tafsir E Usmani)
[1]حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی:یعنی آخری بات انہوں نے یہ کہی کہ جب ہم سب کو یہ گندہ سمجھتے ہیں اور آپ پاک بننا چاہتے ہیں تو گندوں میں پاکوں کا کیا کام ۔ لہذا انہیں اپنی بستی ہی سے نکال دینا چاہئے کہ یہ روز روز کی رکاوٹ ختم ہو خیر وہ ملعون تو کیا نکالتے۔ ہاں حق تعالیٰ نے لوطؑ اور ان کے متعلقین کو عزت و عافیت کے ساتھ صحیح و سالم ان بستیوں سے نکال لیا اور ان بستیوں پر عذاب مسلط کر دیا جس کا ذکر آگے آتا ہے۔ لوطؑ کے متعلقین میں سےصرف ان کی بیوی آپ سے علیحدہ رہی اور معذبین کےساتھ ہلاک ہوئی کیونکہ اس کا ساز باز ان معذبین سے تھا۔ لوطؑ کے یہاں جو مہمان وغیرہ آتے ان کی اطلاع یہ ہی کیا کرتی اور ان کو بدکاری کی ترغیب دیتی تھی۔ یا جیسا کہ بعض نے لکھا ہے مردوں کی طرح عورتوں میں بھی 'مساحقہ' کا رواج ہو گیا تھا، یہ عورت اس میں مبتلا تھی۔ بہرحال عذاب ان سب پر آیا جو اس مہلک مرض میں مبتلا تھے اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ نبی کا مقابلہ اور تکذیب کرتے تھے، یا جو کفر و فحش کے سسٹم میں ان کے معین و مددگار تھے۔
Aakhir e kaar humne Lut aur uske gharwalon ko bajuz uski biwi ke jo pichey reh janey walon mein thi
— Abul Ala Maududi(Roman Urdu)
پھر ہم نے بچالیا لوط کو اور اس کے گھر والوں کو، اس کی بیوی کے سوا جو پیچھے رہ جانے والوں میں سے بنی
— Maulana Wahiduddin Khan
7:84
وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِم مَّطَرًۭا ۖ فَٱنظُرْ كَيْفَ كَانَ عَـٰقِبَةُ ٱلْمُجْرِمِينَ ٨٤
We poured upon them a rain ˹of brimstone˺. See what was the end of the wicked!
— Dr. Mustafa Khattab, The Clear Quran
And We rained down upon them a rain. So, look! How was the fate of the sinners!
— T. Usmani
And We rained upon them a rain [of stones]. Then see how was the end of the criminals.
— Saheeh International
84. And We rained down on them a rain (of stones). Then see what was the end of the Mujrimûn (criminals, polytheists and sinners).
— Al-Hilali & Khan
and We showered upon [the rest of] them a rain [of destruction]. See the fate of the evildoers.
— M.A.S. Abdel Haleem
and We let loose a shower [of stones] upon them,1 Observe, then, the end of the evil-doers.2
— A. Maududi (Tafhim commentary)
[1]The 'rainfall' in the verse does not refer to the descent of water from the sky. It refers rather to the volley of stones. The Qur'an itself mentions that their habitations were turned upside down and ruined. See (verse 85); also (Hud 11:82-3); (al-Hijr 15:74-E.)
[2]In light of this verse and other references in the Qur'an, sodomy is established as one of the deadliest sins; and that it incurred God's scourge on those who indulged in it. We also know from the teachings of the Prophet (peace be on him) that the Islamic state should purge society of this crime and severely punish those guilty of it. There are several traditions from the Prophet (peace be on him) which mention that very severe punishments were inflicted on both partners of this act. According to one tradition, the Prophet (peace be on him) ordered that both partners be put to death. (See Ibn Majah, Kitab al-Hudud, 'Bab man 'amila 'Amal Qawm ut'- Ed.) In another tradition it has been added that the culprits should be put to death whether they are married or un-married. (Ibn Majah, Kitab al-Hudad - Ed.) In another tradition it has been said that both parties should be stoned (to death). (Ibn Majah, Kitab al-Hudad, 'Bab man 'amila 'Amal Qawm Lut ' - Ed.) However, since no case of sodomy was reported in the lifetime of the Prophet (peace be on him), the punishment did not acquire a very clear and definitive shape. Among the Companions, 'Ali is of the view that such sinners should be beheaded and instead of being buried should be cremated. Abu Bakr also held the same view. However, 'Urnar and 'Uthman suggest that the sinners be made to stand under the roof of a dilapidated building, which should then be pulled down upon them. Ibn 'Abbas holds the view that those guilty of such a sinful act should be thrown from the top of the tallest building of the habitation and then pelted with stones. (See al-Fiqh 'ala al-Madhahib al-Arba'ah, vol. 5, pp. 141-2 - Ed.) As for the jurists, Shafi pronounces the punishment of death on both partners to sodomy irrespective of their marital status, and of their role whether it be active or passive. According to Sha'bi, Zuhri, Malik and Ahmad b. Hanbal, they should be stoned to death. Sa'id b. al-Musayyib, 'Ata', Hasan Basri, Ibrahim Nakha'i, Sufyan Thawri and Awa'i believe that such sinners deserve the same punishment as laid down for unlawful sexual-intercourse: that unmarried ones should be lashed a hundred times and exiled, and that married ones should be stoned to death. Abu Hanifah, however, does not recommend any specific punishment. For him, the sinner should be awarded, depending on the circumstances of each case, some deterrent punishment. According to one of the reports, the same was the view of Shafi'i. (See Ibn Qudamah, al-Mughni, vol. 8, pp. 187-8 - Ed.) It should also be made clear that it is altogether unlawful for the husband to perpetrate this act on his wife. The Prophet (peace be on him), according to a tradition in Abu Da'ud, said: 'Cursed be he who commits this act with a woman.' (Abu Da'ud, Kitab al-Nikah, 'Bab fi Jami ' al Nikah' - Ed.) In other collections of Hadith such as Sunan of Ibn Majah and Musnad of Ahmad b. Hanbal. we find the following saying of the Prophet (peace be on him): 'God will not even look at him who commits this act of sodomy with his wife in her rectum.' (Ibn Majah, Kitab al-Nikah', 'Bab al-Nahy'an Ityan al-Nisa' fi Adbarihinn', Ahmad b. Hanbal, Musnad, vol. 2, p. 344 - Ed.) Likewise the following saying of the Prophet (peace be on him) is mentioned in Tirmidhi: 'He who makes sexual intercourse with a menstruating woman, or indulges in sodomy with a woman. or calls on a soothsayer, believing him to be true, denies the faith sent down to Muhammad (peace be on him).' (Ibn Majah, Kitab al-Taharah, 'Bab al-Nahy 'an ityan al-Ha'id'- Ed.)
And We rained a rain upon them. See now the nature of the consequence of evil-doers!
— M. Pickthall
And we rained down on them a shower (of brimstone): Then see what was the end of those who indulged in sin and crime!
— A. Yusuf Ali
بچا کر نکال دیا اور اس قوم پر برسائی ایک بارش پھر دیکھو کہ ان مجرموں کا کیا انجام ہوا ؟
— Fe Zilal al-Qur'an
بچا کر نکال دیا اور اس قوم پر برسائی ایک بارش1، پھر دیکھو کہ اُن مجرموں کا کیا انجام ہوا۔2
— Tafheem e Qur'an - Syed Abu Ali Maududi
[1] یہاں اور دوسرے مقامات پر قرآن مجید میں صرف یہ بتایا گیا ہے کہ عمل قوم لوط ایک بد ترین گناہ ہے جس پر ایک قوم اللہ تعالیٰ کے غضب میں گرفتا ہوئی ۔ اس کے بعد یہ بات ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی سے معلوم ہوئی کہ یہ ایک ایسا جرم ہے جس سے معاشرے کو پاک رکھنے کی کوشش کرنا حکومت ِ اسلامی کے فرائض میں سے ہے اور یہ کہ اس جرم کے مرتکبین کوسخت سزا دی جانی چاہیے۔ حدیث میں مختلف روایات جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے ان میں سے کسی میں ہم کو یہ الفاظ ملتے ہیں کہ اقتلو ا الفاعل و المفعول بِہٖ(فاعل اور مفعول کو قتل کر دو)۔ کسی میں اس حکم پر اتنا اضافہ اور ہے کہ احصنا اولم یحصنا (شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ)۔ اور کسی میں ہے فارجموا الا علی و الاسفل(اُوپر اور نیچے والا، دونوں سنگسار کیے جائیں)۔ لیکن چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایسا کوئی مقدمہ پیش نہیں ہوا س لیے قطعی طور پر یہ بات متعین نہ ہو سکی کہ اس کی سزا کس طرح دی جائے۔ صحابہ کرام میں سے حضرت علی ؓ کی رائے یہ ہے کہ مجرم تلوار سے قتل کیا جائے اور دفن کرنے کے بجائے اس کی لاش جلائی جائے۔ اسی رائے سے حضرت ابوبکر ؓ نے اتفاق فرمایا ہے۔ حضرت عمر اور حضرت عثمان کی رائے یہ ہے کہ کسی بوسیدہ عمارت کے نیچے کھڑا کر کے وہ عمارت اب پر ڈھا دی جائے۔ ابن عباس کا فتویٰ یہ ہے کہ بستی کی سب سے اُونچی پر سے ان کو سر کے بل پھینک دیا جائے اور اوپر سے پتھر برسائے جائیں۔ فقہاء میں سے امام شافعی کہتے ہیں کہ فاعل و مفعول واجب القتل ہیں خواہ شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ ۔ شعبی، زُہری، مالک اور احمد رحمہم اللہ کہتے ہیں کہ ان کی سزا رجم ہے۔ سعید بن مُسَیَّب، عطاء، حسن بصری،ابراہیم نخعی، سفیان ثوری اور اوزاعی رحمہم اللہ کی رائے میں اس جرم پر وہی سزا دی جائے گی جو زنا کی سزا ہے، یعنی غیر شادی شدہ کو سو کوڑے مارے جائیں گے اور جلا وطن کر دیا جائے گا، اور شادی شدہ کو رجم کیا جائے گا۔ امام ابو حنیفہ کی رائے میں اس پر کوئی حد مقرر نہیں ہے بلکہ یہ فعل تعزیر کا مستحق ہے، جیسے حالات و ضروریات ہوں ان کے لحاظ سے کوئی عبرت ناک سزا اس پر دی جاسکتی ہے ۔ ایک قول امام شافعی سے بھی اسی کی تائید میں منقول ہے۔
معلوم رہے کہ آدمی کے لیے یہ بات قطعی حرام ہے کہ وہ خود اپنی بیوی کے ساتھ عمل قوم لوط کرے۔ ابو داؤد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد مروی ہے کہ ملعون من اتی المرٲ تہ فی دبرھا (اللہ اُس مرد کی طرف ہر گز نظر رحمت سے نہ دیکھے گا جو عورت سےاس فعل کا ارتکاب کرے)۔ ترمذی میں آپ کا یہ فرمان ہے کہ من اتی حائضا او امرٲ ة فی دبرھا او کاھنا فصدّ قہ فقد کفر بما انزل علیٰ محمّدؐ (جس نے حائضہ عورت سے مجا معت کی ، یا عورت کے ساتھ عمل قوم لوط کا ارتکا ب کیا ، یا کاہن کے پاس گیا اور اس کی پیشن گوئیوں کی تصدیق کی اُس نے اس تعلیم سے کفر کیا جو محمد ؐ پر نازل ہوئی ہے)۔
[2] بارش سے مراد یہاں پانی کی بارش نہیں بلکہ پتھروں کی بارش ہے جیسا کہ دوسرے مقامات پر قرآن مجید میں بیان ہوا ہے۔ نیز یہ بھی قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ اُن کی بستیاں اُلٹ دی گئیں اور انہیں تلپٹ کر دیا گیا۔
اور ہم نے ان پر خاص طرح کا مینہ[1] برسایا پس دیکھو تو سہی ان مجرموں کا انجام کیسا ہوا؟[2]
— Maulana Muhammad Junagarhi
[1]یہ خاص طرح کا مینہ کیا تھا ؟ پتھروں کا مینہ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا: «وَأَمۡطَرۡنَا عَلَيۡهَا حِجَارَةٗ مِّن سِجِّيلٖ مَّنضُودٖ» [هود: 82]. ”ہم نے ان پر تہ بہ تہ پتھروں کی بارش برسائی“۔ اس سے پہلے فرمایا : «جَعَلۡنَا عَٰلِيَهَا سَافِلَهَا» ”ہم نے اس بستی کو (الٹ کر) نیچے اوپر کردیا“۔
[2]یعنی اے محمد! (صلى الله عليه وسلم) دیکھئے تو سہی، جو لوگ علانیہ اللہ کی معاصی کا ارتکاب اور پیغمبروں کی تکذیب کرتے ہیں، ان کا انجام کیا ہوتا ہے؟
اور ہم نے ان پر (پتھروں کا) مینھ برسایا۔ سو دیکھ لو کہ گنہگاروں کا کیسا انجام ہوا
— Fatah Muhammad Jalandhari
اور ہم نے برسائی ان پر ایک بارش تو دیکھو کیا انجام ہوا مجرموں کا !
— بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد)
اور برسایا ہم نے انکے اوپر مینہ یعنی پتھروں کا [1] پھر دیکھ کیا ہوا انجام گنہگاروں کا [2]
— Shaykh al-Hind Mahmud al-Hasan(with Tafsir E Usmani)
[1]قوم لوط علیہ السلام کا عذاب:دوسری جگہ مذکور ہے کہ بستیاں الٹ دی گئیں اور پتھروں کا مینہ برسایا گیا۔ بعض ائمہ کے نزدیک آج بھی لوطی کی سزا یہ ہے کہ کسی پہاڑ وغیرہ بلند مقام سے اسے گرایا جائے اور اوپر سے پتھر مارے جائیں اور سخت بدبودار گندی جگہ میں مقید کیا جائے۔
[2]یعنی گناہ کرتے وقت اس کا بد انجام سامنے نہیں آتا۔ عاجل شہوت و لذت کے غلبہ میں وہ بات کر گذرتا ہے جو عقل و انسانیت کے خلاف ہے لیکن عقلمند کو چاہئے کہ دوسروں کے واقعات سن کر عبرت حاصل کرے اور بدی کے انجام کو ہمیشہ پیش نظر رکھے۔
اور ہم نے ان پر بارش برسائی پتھروں کی، پھر دیکھو کہ کیسا انجام ہوا مجرموں کا
— Maulana Wahiduddin Khan
Bacha kar nikal diya aur us qaum par barsayi ek baarish, phir dekho ke un mujreemon ka kya anjaam hua
— Abul Ala Maududi(Roman Urdu)
Also read:
Homosexuality, Adultery and Rape
As in the Days of Lot (Russia’s Holy War)
World History & Future Implications
Search results:
triliteral root fā ḥā shīn (ف ح ش) :
https://corpus.quran.com/qurandictionary.jsp?q=fH$#(4:22:14)
No comments:
Post a Comment